Saturday, 29 July 2017

معاشرے کی بے حسی اور آج کا نوجوان طبقہ

تحریر :- Tuba aslam

معاشرے کی بے حسی اور آج کا نوجوان طبقہ

میں آج جس موضوع پر بات کروں گی وہ ہے نوجوان نسل۔
میری نوجوان نسل  سے گزارش ہےکہ ہم ترقی کے اس دور میں اتنے بھی ایڈوانس نہ ہوں کہ ہم سب  بھول جائیں۔ ہماری کامیابی اسی میں ہےکہ اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں اور ہم عصروں سے اچھا سلوک کریں جیسا کہ انکا حق ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔میرے قابل عزت قارئین کرام! آج ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں یہ نہایت ہی بے حسی کی زندگی ہے کیونکہ معاشرے میں رہنے والا ہر ایک شخص بے حس ہو گیا ہے۔ خاص کر آج کل کی نوجوان نسل کی بے حسی کی تو کوئی انتہاء ہی نہیں ہے۔ بالخصوص  ہمیں بڑوں سے بات کرنے کا طریقہ ہے اور نہ ہی چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنے کا سلیقہ ہے اور نہ ہی ہمارے پاس اتنا ٹائم ہےکہ کے اپنے بزرگوں کے پاس بیٹھ سکیں۔ اور اگر کسی نوجوان سے کسی فلمی ایکٹر کا پوچھا جائے تو وہ پوری ہسٹری بتانے میں ذرا بھی دقت محسوس نہیں کرے گا۔اور اگر گھر والوں کے کسی کام میں مدد کرنی ہو تو وہ پانچ منٹ نہیں نکال سکے گا۔ اس کی بڑی وجہ ایک یہ بھی ہےکہ نوجوان طبقہ جو اسی معاشرے کا مستقبل ہے وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ یا کسی دوسرے فرسودہ کا موں میں صرف کر دیتا ہے۔

آج کا نوجوان سوشل میڈیا میں بری طرح پھنس کر رہ گیا ہے اسے دیگر معاملات زندگی کی طرف ہوش ہی نہیں ہے نہ اسے دنیا کی فکر ہے اور نہ آخرت کی۔ ۔ میری والدین سے اپیل ہےکہ اگر اپنی نئی نسل کو بچانا مقصود ہے تو کم سے کم میٹرک سے پہلے بچوں کو موبائل فون مہیا نہ کریں۔ اور نہ ہی سوشل نیٹ ورکنگ کی اجازت دی جائے۔اور اگر بہت ضروری ہو تو اپنی زیر نگرانی  استعمال کرنے کیلئے دیا جائے۔ لیکن ذاتی طور پر ہر گز نہ دیا جائے۔

اگر انٹر نیٹ اور سوشل نیٹ ورکنگ کے ساتھ اٹیچمنٹ ختم نہ کی گئی تو ہماری نوجوان نسل بری طرح اخلاقی پستی کا شکار ہو جائے گی۔میرا کہنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ ان چیزوں سے بالکل ہی دور رکھا جائے بلکہ ان چیزوں سے مستفید ضرور ہوا جائے۔آج ہم ذہنی طور پر انتہا درجے کے کمزور ہو چکے ہیں۔ اور دوسری بڑی وجہ یہ ہےکہ آج کا بچہ میٹرک فرسٹ ڈویژن میں تو کر لیتا ہے۔ لیکن اگر اس سے دین کے متعلق کچھ پوچھا جائے تو وہ اس پر خاموشی  ظاہر کرتا ہے ۔میرے نزدیک  اس بے حسی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آج ہم دین اسلام سے مکمل طور پر بھٹک چکے ہیں۔

آج کا نوجوان کہاں کھڑا ہے؟

آج کل ہر نوجوان کا سرورق اس قدر درد ناک ہے ۔ کتاب کھولنے سے پہلے ہی دل ڈولنے لگتا ہے ۔ پاکستان کی نوجوان نسل تین حصوں میں تقسیم ہے ۔
کچھ کے ہاتھوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گٹار
کچھ کے ہاتھوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہتھیار
باقی ہتھیار اور گٹار کے دوراہے پر کھڑے بیر وزگار ۔ ہر چہرہ اپنی بے بسی کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے عملی صلاحیت سے مستفید ہونے والا نوجوان طبقہ بھی روزگار نہ ملنے کے سبب مالی مشکلات سے دو چار ہے ۔ اور ان نوجوانوں نے مشکلات سے نمٹنے کے لیے اپنی سوچ کا دھارا تبدیل کر لیا تاکہ پیٹ کی آگ کو بجھایا جا سکے۔ نوجوان نسل نے منشیات اور اسمگلنگ کا دھندا اختیار کیا اور ذلت و رسوائی کا راستہ اپنا کر من کی آگ کو بجھانا چاہا ۔ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے

”دل آج پھر کوئے ملامت کو جائےہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے“

یہ جائزہ چند پڑھے لکھے جوانوں کا ہے اب اس طبقے کے برعکس ان نوجوانوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیے جو علم کے زیور سے نا آشنا ہے ۔ جن کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ ان کے ہاتھوں میں قلم کی بجائے کلاشنکوف ہے ۔ آخر اس طبقے نے بھی تو گزر بسر کرنا ہے ۔ نوجوانوں کا یہ گروہ لوٹ مار ۔ ڈاکہ زنی اور دیگر گھناؤنے جرائم میں ملوث ہو جاتا ہے ۔ بعض نوجوان حالات سے تنگ آکر خود کشی کا راستہ اپنا لیتے ہیں ۔ آخر اس کی ذمہ داری والدین پر ہے یا حکمرانوں پر ۔ لیکن میرے اس نظریے سے شاید چند ایک کو اختلاف ہو میں ارباب اختیار کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتی ہوں ۔ اس لیے کہ والدین یہ نہیں چاہتے کہ ان کی اولاد زیور تعلیم سے آراستہ نہ ہو لیکن ان کے پاس مالی وسائل نہ ہونے کے باعث ان کی اولاد بےراہ روی کا شکار ہو جاتی ہے ۔ نوجوانوں کو تعلیم اور روز گارکے مو اقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے اپنے دور حکومت میں فرمایا(مفہوم)کہ دریائے نیل کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائےتو روزِمحشر مجھے اس کا جواب دینا ہو گا ۔۔ کاش ہمارے اربابِ اقتدارو اختیار دونوں اپنے فرائض منصبی کو سمجھ سکیں اور پاکستان کی نوجوان نسل جس نے مستقبل قریب میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے اس پر
توجہ دیں تاکہ نوجوانانِ پاکستان کا مستقبل محفوظ رہ سکے۔
واللہ اعلم و رسولہ اعلم۔