ازقلم محمد مشتاق احمد
آج کافی دنوں بعد محفل پر آنا ہوا تو صفحہ اول پر ماورا بہنا کی دھمکی آمیز پوسٹ پڑھی ۔ عنوان بھی جی کو لگا تو سوچا کہ کچھ طبع آزمائی کر ہی لی جائے۔ اس مضمون پر کچھ بھی لکھنے سے پہلے یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ہم بات کس کے متعلق کر رہے ہیں۔ طلباء کا مطلب تو معلوم ہوا کہ طالب کی جمع ہے۔ لیکن طالب کس چیز کے؟ یہ سوال اس لئے اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ آجکل طالب کے نام سے بہت سی چیزیں مارکیٹ کی جارہی ہیں۔ ایک شخص پیسے کا طالب ہو سکتا ہے، شہرت کا طالب ہو سکتا ہے، طاقت کا طالب ہو سکتا ہے، نوکری کا طالب ہو سکتا ہے، اقتدار کا طالب ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر طالب کی اصل تعریف کو دیکھا جائے تو سیاستدان، منشیات فروش، جاگیردار، سرکاری افسر، مزدور، دوکاندار غرضیکہ ہر شعبہ زندگی سے وابستہ ہر شخص ایک طالب ہے اور تمام معاشرہ طلباء پر مشتمل ہے۔ روز مرہ میں البتہ طلباء کی جب بات کی جاتی ہے تو عمومی طور پر اشارہ ان افراد کی طرف ہوتا ہے جو علم کے طالب ہوں ۔ اب یہاں بات یہ آن پڑی کہ علم کیا ہے؟ علم کی تعریف تو یہ ہو گئی کہ کسی چیز کے متعلق جاننا علم کہلاتا ہے۔ اور اوپر جن چیزوں کی بابت طالب کی تعریف کے زمرے میں بات ہوئی ان سب مقاصد کے حصول کے لئے بھی علم کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ علم سیاسی جوڑ توڑ کا بھی ہوسکتا ہے، رشوت کے مناسب استعمال کا بھی، دہشت گردی کی تکنیک کا بھی ، گاہک کی نفسیات کا بھی اور اپنے افسر کی پسند و ناپسند کا بھی۔ سیاسی غلبہ کے طالب کے لئے سیاسی جوڑ توڑ کا علم ضروری ہے، قانون شکنی کے طالب کے لئے رشوت کے مناسب استعمال کا علم، طاقت کے طالب کے لئے اوروں پر دہشت طاری کرنے کا علم اور بکری میں اضافہ کے لئے گاہک کی نفسیات جاننے کا علم ضروری ہے۔ سو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طلب اس وقت تک تشنہ رہتی ہے جب تک آپ کو اس کے حصول کا علم نہ ہو۔ اس لئے علم کی اتنی وسیع جہتوں کی موجودی میں صرف طالب علم کہہ دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس علم کی نوعیت مقرر کرنا بہت ضروری ہے جس کے طلباء کو مستقبل کا امین بنانا مقصود ہے۔ ہمارے معاشرہ میں عمومی طور پر جب طالب علم کی بات کی جاتی ہے تو نظروں میں کوئی آٹھ دس کلو وزنی بستے اور ان کے بوجھ تلے دبے بچے کود آتے ہیں جو یا تو مکتب کی طرف جا رہے ہوتے ہیں یا مکتب سے واپس آرہے ہوتے ہیں۔ علم کی بات کی جاتی ہے تو وہ تمام کتابیں جو بوجھ بن کر ان بچوں کے اوپر لادی گئی ہوتی ہیں ان کے عنوان نظروں میں گھوم جاتے ہیں۔ قوم اور والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان بچوں پر کتابیں لاد کر، انہیں ان کتابوں میں لکھے سیاہ حروف رٹا کر ہم نے ان میں علم کی طلب پیدا کر بھی دی اور اس پیاس کو کما حقہ بجھا بھی دیا۔ ثبوت کے طور پر سکور کارڈ اور ڈگریاں دکھائی جاتی ہیں کہ "وصول شد"۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کونسا مستقبل ہے جس کے لئے یہ نونہال تیار کئے جا رہے ہیں؟ وہ علم جس سے قوموں کی ترقی منسلک ہے، جس سے معاشرہ میں خوشحالی و آسودگی وابستہ ہے کیا ہم ان نونہالوں میں اس علم کی تڑپ اور لگن پیدا کررہے ہیں اور کیا انہیں اس علم کے حصول کے مواقع فراہم کر رہے ہیں؟ آپ کسی بھی سکول جاتے بچے کے والدین سے پوچھئے کہ وہ اپنے بچوں کو مکتب کیوں بھیجتے ہیں؟ جواب فوراَ آئے گا "پڑھنے کے لئے" پوچھئے کہ "پڑھائی کا فائدہ"؟ اور اکثریت کا جواب ہوگا "پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں گے" اب پوچھئے کہ کیا بن جائیں گے تو جواب ہوگا "ڈاکٹر، انجنیئر، فوجی افسر، سرکاری افسر وغیرہ وغیرہ"۔